Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج)
2 - 198
مسئلہ۳ :مسئولہ مولوی علی احمد صاحب مصنّف تہذیب الصبیان ۱۹ جمادی الاولیٰ۱۳۱۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ان دنوں قحط میں بعض آدمی مد زکوٰۃ میں بھوکوں کو غلّہ مکّا وغیرہ تقسیم کر تے ہیں ، یہ جائز ہے یا نہیں؟بینواتوجروا
الجواب :زکوٰۃ میں روپے وغیرہ کہ عوض بازار کے بھاؤ سے اس قیمت کا غلّہ مکّا وغیرہ محتاج کو دے کر بہ نیت زکوٰۃ مالک کردینا جائز و کافی ہے ، زکوٰۃ ادا ہوجائیگی ، جس قدر چیز محتاج کی مِلک میں گئی بازار کے بھاؤ سے جو قیمت اس کی ہے وہی مجراہوگی بالائی خرچ محسوب نہ ہوں گے ، مثلاآج کل مکّا کا نرخ نَو سیر ہے نَو من مکّا مول لے کر محتاجو ں کو بانٹی تو صرف چالیس روپیہ زکوٰۃ میں ہوں گے ، اُس پر جو پلّہ داری یا باربرداری دی ہے حساب میں نہ لگائی جائےگی ، یا گاؤں سے منگا کر تقسیم کی تو کرایہ گھاٹ چونگی وضع نہ کریں گے ، یا غلّہ پکا کر دیا تو پکوائی کی اُجرت ، لکڑیوں کی قیمت مجرانہ دینگے، اس کی پکی ہوئی چیز کو جو قیمت بازار میں وہی محسوب ہو گی ، لان رکنھا التملیک من فقیر مسلم لو جہ اﷲتعالی من دون عوض۔کیونکہ اس کا رکن یہ ہے کہ کسی فقیر کو اﷲکی رضاکی خاطر اس کا مالک بنایا اور بطور معاوضہ نہ ہو ۔ (ت)
درمختار میں ہے :
لو اطعم یتیما نا ویا الزکوٰۃ لا یجزیہ الا اذا دفع الیہ المطعوم کمالوکساہ۔ ۱؎
جب کسی نے یتیم کو نیتِ زکوٰۃ سے کھانا کھلایا زکوٰۃ ادا نہ ہوگی جب تک کھانا اس کے حوالے نہ کردے، ایسے ہی لباس کا معاملہ ہے (ت)
 ( ۱؂ در مختار         کتاب الزکوٰۃ        مطبع مجتبائی دہلی۱ /۱۲۹)
عالمگیری میں ہے :
ماسواہ من الحبوب لا یجوزالابالقیمۃ۔ ۲؎
یہ دانوں کے علاوہ میں ہے کیونکہ وہاں قیمت ہی ضروری ہے (ت)
 (۲؂فتاوی ہندیہ    الباب الثامن فی صدقۃالفطر        نورانی کتب خانہ پشاور        ۱ /۱۹۲)
اسی میں ہے :
الخبز لا یجوز الا باعتبار القیمۃ ۳؎
 (روٹی کا اعتبار قیمت کے بغیر جائز نہیں ۔ ت)
واﷲسبحٰنہ وتعالٰی اعلم و علمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
 (۳؎ فتاوی ہندیہ    الباب الثامن فی صدقۃالفطر        نورانی کتب خانہ پشاور        ۱ /۱۹۲)
مسئلہ ۴:کیا فر ماتے علمائے دین اس صور ت میں کہ اگر کسی شخص نے عوض اس زر زکوٰۃ کہ جو اس کہ ذمّہ واجب ہے محتاجو ں کو کھانا کھلادیا یا کپڑے بنادئے تو زکوٰۃ ادا ہو جائیگی یا نہیں؟بینو ا توجروا۔
الجواب : عوض زر زکوٰۃ کے محتاجوں کو کپڑے بنادینا، انھیں کھانا دے دینا جائز ہے اور اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائیگی خاص روپیہ ہی دینا واجب نہیں مگر ادائے زکوٰۃ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس قدر مال کا محتاجوں کو مالک کر دیا جائے  اسی واسطے اگر فقراء و مساکین کو مثلاًاپنے گھر بلا کر کھانا پکا کر بطریقِ دعوت کھلادیا تو ہر گز زکوٰۃ ادا نہ ہوگی کہ یہ صورت اباحت ہے نہ کہ تملیک ، یعنی مدعو  اس طعام کو ملکِ داعی پر کھاتا ہے اور اس کا مالک نہیں ہو جاتا اسی واسطے مہمانو ں کو روا نہیں کہ طعامِ دعوت سے بے اذنِ دعوت میزبان گداؤں یا جانوروں کو دے دیں ، یا ایک خوان والے دوسرے خوان والے کو اپنے پاس کچھ اٹھا دیں یا بعد فراغ جو باقی بچے اپنے گھر لے جائیں۔
فی الدرالمختار لو اطعم یتیما ناویا الزکوٰۃ لا یجزیہ الااذادفع الیہ المطعوم کما لو کساہ ۱؎ انتھی قولہ کما لو کساہ ای کما یجزیہ۲؎ ۱ھ طحطاوی عن الحلبی وفی الحاشیۃ الطحطاویۃ ایضا فی باب المصرف لا یکفی فیھا الاطعام الابطریق التملیک ولواطعمہ عندہ نا ویا الزکوٰۃلا یکفی ۳؎  انتھی۔
درمختار میں ہے کہ کسی نے یتیم کو بنیتِ زکوٰۃکھانا کھلایا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی مگر اس صورت میں جب کھانا اس کے سپردکر دیا گیا ہو ، جیسا کہ اگراسے لباس پہنادیا گیا ہو انتہی قولہ ''کمالوکساہ'' یعنی اس صورت میں بھی زکوٰۃادا ہوجائیگی اھ طحطاوی عن الحلبی اور حاشیہ  طحطاویہ کے باب المصرف میں یہ بھی ہے کھانا کھلادینا کافی نہیں البتہ اگر مالک کردے توپھر کافی ہے، اور اگر کسی نے نیتِ زکوٰۃسے کھانا کھلایا تو کافی نہ ہوگاانتہی (ت)
(۱؎ درمختار          کتاب الزکوٰۃ        مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۱۲۹)

(۲؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الزکوٰۃ        دارالمعرفۃ بیروت        ۱ /۳۸۸)

(۳؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار باب المصرف        دارالمعرفۃ بیروت            ۱ /۴۲۵)
ہاں اگر صاحبِ زکوٰۃ نے کھانا خام خواہ پختہ مستحقین کے گھر بھجوادیا یا اپنے ہی گھر کھلایا مگر بتصریح پہلے مالک کردیا تو زکوٰۃ ادا ہو جائیگی،
فان العبرۃللتملیک ولا مدخل فیہ لا کلہ فی بیت المزکی اوارسالہ الی بیوت المستحقین وما ذکرہ الطحطاوی محمول علی الدعوۃ المعروفۃ فانھا المتبادرۃ منہ وانھا لا تکون الا علی سبیل الا باحۃ، واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ اعتبار تملیک کا ہے اس میں اس کا کوئی دخل نہیں کہ زکوٰۃ دینے والے کی گھر کھانا کھایا یا مستحق لوگوں کے گھر بھیج دیا ہو۔ اور جو طحطاوی نے ذکر کیا وہ دعوتِ معروفہ پر محمول ہے کیونکہ اس سے متبادر ہے کہ یہ دعوت بطورِ تملیک نہیں ہوتی بلکہ بطورِ اباحت ہوتی ہے، وا ﷲتعالےٰ اعلم (ت)
مسئلہ ۵ :مرسلہ مولوی عبدالواحد صاحب متعلم مدرسہ اہلسنت و جماعت بریلی ۲۷ذی الحجہ ۱۳۳۶ھ 

کیا فر ماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے زکوٰۃ کا روپیہ نکا لا اور اس روپیہ سے غلّہ خریدا اور تمام محتاجوں کو جمع کرکے اور کھانا پکواکر کھلوایا تو آیا زکوٰۃ ادا ہو جائیگی کہ نہیں ، کیا ضروری ہے کہ جو روپیہ نکالا وہی بعینہٖ دے؟
الجواب :کھانا جمع کر کے کھلادینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہُوئی
لا نہ ابا حۃ ورکنھا التملیک
 (کیونکہ یہ اباحت ہے حالانکہ زکوٰۃ کا رکن مالک بنانا ہے ۔ ت) نہ بعینہٖ روپیہ دینا ضرور، بلکہ اگر اس کا اناج یا کپڑا خرید کر محتاجوں کو دے دیتا یا کھانا پکا کر اُن کے گھر بھیج دیتا یا حصّے انھیں تقسیم کر دیتا تو بازار کے بھاؤ سے جو اُس کی قیمت ہوتی اس قدر زکوٰۃ ادا ہو جا تی پکوائی وغیرہ اجرت  میں جو صرف ہُوا وہ محسوب نہ ہوگا ۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۶ :ازدھوراجی ملک کاٹھیاواڑ مسئولہ حاجی عیسٰی خاں محمد صاحب ۲۱صفر۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قحط سالی میں مسلمان لوگ چندہ کرکے روپیہ جمع کرکے گندم چھ روپیہ کے بھاؤسے ایک من خرید کر کےچار روپیہ کے بھاؤ سے مسلمان غریب لوگوں کو دینا اور جو دو روپیہ کا نقصان ہوتا ہے وہ مالِ زکوٰۃ سے ادا ہو جائےگا یا نہیں؟اگر نہ ہوتا ہو تو کس صورت سے ادا ہو؟مہربانی فرما کر جلدی عنایت فرمائیں، بہت ضروری ہے، یہاں پر بالکل بارش نہیں ہُوئی ہے، اور غریب مسلمان لوگوں کو بہت ضرورت ہے، اس مسئلہ کو سوال بنا کر جواب لکھ کر روانا کر دینا ۔
الجواب :زکوٰۃ اس طرح ادا نہیں ہوسکتی،
فان البیع یبائن الصدقۃ والمحاباۃلیست فی القدر الزائد المتروک من التملیک فی شئ فانک لم تملکہ حتی تملکہ۔
کیونکہ بیع، صدقہ کےمبائن چیز ہے، خریداری  میں رعایت سودے سے کسی زائد چیز کی تملیک نہیں ہے کیونکہ رعایت تیری ملکیت نہیں، تاکہ تو کسی کو مالک بنائے۔ (ت) بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ چھ۶ ہی روپے من اُن کے ہاتھ بیچیں اور فی من دو۲روپے اُن کو زکوٰۃ میں اپنے پاس سے دیں اور قیمت میں چھ۶ روپے اُن سے وصول کریں، اُن کے دو روپے زکوٰۃ میں محسوب ہوں گے اور اُن کو من بھر گیہوں پر چار۴ہی روپے اپنے پاس سے دینے پڑے۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ ۷ :    ۱۲رجب ۱۳۳۱ھ 

چار پانچ آدمی بزاز کے یہاں کپڑا خریدنے گئے اُن میں سے ایک نے کوئی کپڑا چُرالیا، بعد معلوم ہونے کے دُکاندار نے اس کومعاف کر دیا اور نیّت صدقہ یا زکوٰۃ کی کی، تو یہ نیت اس کی صحیح ہوگی یا نہیں؟ اور یہ کپڑا صدقہ یا زکوٰۃ میں محسوب ہوگا یا نہیں؟
الجواب  : 

اگر وُہ کپڑا ہنوز موجود ہے تو نہ وُہ صدقہ میں محسوب ہوگا، نہ زکوٰۃ میں، نہ اس کی معافی ہوگی
فان الابراء عن الاعیان باطل
(کیونکہ اعیان سے بری کرنا باطل ہے ۔ ت)ہاں اگر اسے ہبہ کردیاتو ہبہ ہوجائیگا ،اور اگر ہبہ کرنے سے زکوٰۃ یا صدقہ کی نیّت کی اور وُہ شخص اس کا مصرف ہو تو زکوٰۃ و صدقہ ادا ہوجائیں گے، اور اگر وُہ کپڑا اُس نے تلف کر دیا یہاں تک کہ اُس کا اُس پر تاوان لازم آیا اور اُس نے وہ تاوان معاف کر دیا تو معافی صحیح ہے اور نیت محمود ہو تو اجر پائے گا اور یہ خود ایک صدقہ نفل ہے مگر اس میں زکوٰۃ کی نیت صحیح نہیں، ہاں اس سے اتنے کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی جتنا تاوان اس پر واجب تھا مگر یہ اُس کے دیگر اموال کی زکوٰۃ ہوسکے یہ نہ ہوگا۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۸ تا ۱۱:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسئلوں میں: 

 (۱) زید نے اپنے برادرِ حقیقی یا بہنوئی یا بہن یا کسی دوست کو اپنی ضمانت سے مبلغ پچاس۵۰ روپیہ سُودی قرض دلادئے، اب وُہ روپیہ اصل وسُود مل کر سو روپیہ ہوگئے، زید نے وُہ روپے اپنی زکوٰۃ کے روپے سے ادا کردئے مگر شخص مذکور سے یہ نہیں کہا کہ روپیہ زکوٰۃ کا ہم نے تمھارے قرضہ میں دیا کیونکہ اگر اُس سے کہا جائیگا تو وُہ شخص بوجہ برادری کے زکوٰۃ لینا پسند نہیں کرتااس صورت میں زید سےزکوٰۃ  ادا ہوگیا یا نہیں؟
 (۲) زید نے مبلغ ہزار روپیہ کا رس خریدا اور روپیہ بموجب رواج کھنڈسالیوں کے بالیوں کو دے دیا، وقتِ وصول رس کے، پانچ سو روپیہ کا رس وصول ہُوا، اور باقی روپیہ کے سال آئندہ پر وصول ہونے کی امید رہی، اب زید پر زکوٰۃ پانچ سو روپیہ کی چاہئے یا ہزار کی؟ اور اس بقیہ روپے کا یہ انتظام کیا کہ کچھ روپیہ اور دے کر دستاویز تحریر کرالی اس دستاویز کا روپیہ بشرطِ پیدا واراس تحریر دستاویز سے  دس ماہ بعد وصول ہوگا ورنہ سال آئندہ پر کیا قرضہ دستاویز پر زکوٰۃ چاہئے یا نہیں؟

(۳) کچھ قرضہ زیدکا اس طور ہے کہ زید  نے دستاویز تحریر کراکے روپیہ قرض کردیا، منجملہ اس کے کچھ روپیہ وصول ہوا اور کچھ باقی رہا، اس بقیہ کی نہ دستاویز ہے اور نہ کوئی شئ ایسی اس شخص کے پاس ہے کہ جس سے وُہ قرضہ اپنا ادا کرے ،اور اگر ہے تو بغرض بدنیتی اُس شئ کو دوسرےکے نام کردیا، اب زید کو صرف اُمید ہی امید وصول کی ہے لہذا اس روپے پر زکوٰۃ دی جائے یا نہیں؟

(۴) زید نے پانچ سو روپیہ اپنے اور ہزار قرض لے کر دکان کے منجملہ پندرہ سو روپیہ کے ہزار روپیہ کا مال دُکان میں ہے اور پانچ سو روپیہ قرضہ میں ہیں، اس صورت میں زکوٰۃ دی جائے یا نہیں اور دی جائے تو کس قدر کی؟
الجواب(۱) اگر زید نے وُ ہ روپیہ اپنے اس عزیز کو دل مین نیّتِ زکوٰۃ کرکے دیا تو زکوٰۃ ادا ہوگئی خواہ کسی خرچ میں صرف کرے، اور اگر بطور خودبلا اجازت اس کے قرضہ میں دیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، وا ﷲ تعالٰی اعلم۔

 (۲) زکوٰۃ کُل روپیہ کی واجب ہوگی مگر مقدارِ قرضہ کے ابھی ادا کر نا لازم نہیں، بعد وصول ادا کرسکتاہے۔ 

(۳) جبکہ اس کے پاس ثبوت نہیں اور نہ وُہ ادا پر آمادہ اور نہ اس کے پاس جائداد، تو اُس قرضہ کی زکوٰۃ لازم نہیں۔ 

(۴) منجملہ پندرہ سو کے کسی قدر زکوٰۃ فی الحال واجب الادا  نہیں جبکہ وُ ہ وہی مال رکھتا ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter